ایسا کچھ رکھا ہے اس مکان میں کیا۔ |
روح جا چکی ہے بت بے جان میں کیا۔ |
کیسے اب سامنے چپ ہو گزرے ہیں خود۔ |
آتا ہے میرے وہم و گمان میں کیا۔ |
میری جان نکالے ہے رخسار کا درباں۔ |
ہونٹوں کی تھر تھر ہے زنخدان میں کیا۔ |
چلتی ہواٶں کی سازش یہ ساری لگی۔ |
کچھ نہیں ایسا اس بادبان میں کیا۔ |
چہرہ سجا لیتے ہیں لوگ سجیلے بن کر۔ |
رنگ اتر جاتے ہیں پھولدان میں کیا۔ |
ہم سفر اپنی منزل کا راہی ہوں میں۔ |
چل کے آیا ہوں منزل تھکان میں کیا۔ |
دور اتنا ہوا پھر ملن نہ ہوا۔ |
درد اندر رہا شمع دان میں کیا۔ |
رونا ہے رو بے دل بن کے سامنا کر۔ |
ورنہ تیری بے دل اس فغان میں کیا۔ |
کس قدر تھاما ہے اس شکنجے کو اب۔ |
تیر جا چکا ہے اس کمان میں کیا۔ |
سر پکڑ کے بیٹھا زور سے پیٹ رہا ہے۔ |
سانپ گزر چکا ہے اب نشان میں کیا۔ |
صدمات زمانے کے لہو میرا پی چکے۔ |
دوغلا پن گیا نہیں رکھا زبان میں کیا۔ |
معلومات