داستانِ دل سے ذکرِ داستاں تک آ گئے
ہم کتابیں پڑھ کے آخر امتحاں تک آ گئے
عشق کی راہوں میں لازم ہی نہیں منزل رسی
بس بہت کافی ہے ہم کو ہم جہاں تک آ گئے
ہر طرف ہے اس کی منزل ہر جگہ اس کا جہاں
مہرباں کے در سے نکلے مہرباں تک آ گئے
ہم سے کم ہمت کو لائق ہی نہیں ہے دل لگی
بے کسیِ غم سے پوچھا ہم کہاں تک آ گئے
آتشِ غم کو سمجھتے تھے ہے ہلکا سا شرر
دھیرے دھیرے اب وہ شعلے تن و جاں تک آ گئے
خود گرے ہیں اس گڑھے میں کھودا جو تیرے لیے
جس کماں سے تیر نکلے اس کماں تک آ گئے
آسماں کے بعد تجھ کو اور کس کی ہے تلاش
تیرے دامن تو نشانِ آسماں تک آ گئے
دست بستہ پھر کھڑے ہیں یہ زمین و آسماں
میرے سجدے میں یہ بحرِ بے کراں تک آ گئے

0
29