گُل میں خُوشبو میں بہاروں میں جھلک ہے اُس کی
وہ رگِ جاں میں ستاروں میں جھلک ہے اُس کی
میں جو دیکھوں تو وہ پُتلی سے ہے اوجھل ہر پل
ورنہ شہ رگ کے کناروں میں جھلک ہے اُس کی
وہ جو مکڑی نے لبِ غار بُنا تھا جالا
اسی تخلیق کے تاروں میں جھلک ہے اُس کی
جو بھی مرتا ہے اُٹھائے گا اُسے وہ پھر سے
اُس کی قدرت کے اشاروں میں جھلک ہے اُس کی
دیے اس خاک کے پیکر کو سمجھ کے موتی
میرے ادراک کے دھاروں میں جھلک ہے اُس کی
کیسے ذرّوں میں چُھپا رکھے ہیں سورج اُس نے
اور سورج کے شراروں میں جھلک ہے اُس کی
دیکھنا چاہو تو آؤ میں دکھاتا ہوں تُمھیں
دیکھو قُرآں کے سِپاروں میں جھلک ہے اُس کی
(ڈاکٹر مناف)

84