سراب سا مژۂ خوں فشاں پہ آیا ہے
حریف سختی خواب گراں پہ آیا ہے
غبار بن کے سمندر پہ تشنگی اتری
یا کوئی شعلہ اچھل کر دھواں پہ آیا ہے
سنا تو جاتا ہے ہر حرف مدعا میرا
تپاکِ جاں سے نکل کر زباں پہ آیا ہے
غضب ستم کا نشانہ اسے بنایا گیا
عجب وبال ترے نیم جاں پہ آیا ہے
نظر کا تیر جو ڈوبا ہوا سا زہر میں تھا
مجھے نشانہ بنا کر کماں پہ آیا ہے
وہی زمین کا تیور ہے بے وفائی میں
فریب کا وہی رنگ آسماں پہ آیا ہے
کسی نے چن تو رکھی ہے یہ تیز رفتاری
سو پست رو بھی پس کارواں پہ آیا ہے

0
31