سراب سا مژۂ خوں فشاں پہ آیا ہے |
حریف سختی خواب گراں پہ آیا ہے |
غبار بن کے سمندر پہ تشنگی اتری |
یا کوئی شعلہ اچھل کر دھواں پہ آیا ہے |
سنا تو جاتا ہے ہر حرف مدعا میرا |
تپاکِ جاں سے نکل کر زباں پہ آیا ہے |
غضب ستم کا نشانہ اسے بنایا گیا |
عجب وبال ترے نیم جاں پہ آیا ہے |
نظر کا تیر جو ڈوبا ہوا سا زہر میں تھا |
مجھے نشانہ بنا کر کماں پہ آیا ہے |
وہی زمین کا تیور ہے بے وفائی میں |
فریب کا وہی رنگ آسماں پہ آیا ہے |
کسی نے چن تو رکھی ہے یہ تیز رفتاری |
سو پست رو بھی پس کارواں پہ آیا ہے |
معلومات