کیوں مجھ کو بھگاتا ہے مرے ملک سے آخر
اس دیش کو کیا میں نے سنوارا نہیں بھائی
گلشن کے لیے خونِ جگر سب نے دیا ہے
بھارت پہ تمہارا ہی اجارہ نہیں بھائی
بھارت کو کبھی چھوڑ ہی سکتے نہیں ہرگز
کہ اپنا سمرقند و بخارا نہیں بھائی
چل مجھ کو مرے بھائی گلے سے تو لگا لے
اس راہِ محبت میں خسارا نہیں بھائی
ہم نے سنوارا ہے ترا گیسوئے پر خم
پھر تم کو بھلا میں کیوں گوارا نہیں بھائی
تو غیر کو پیمانہ کیا مے خانہ لٹائے
قطرے کا بھی ہم کو تو اشارہ نہیں بھائی
کرتا ہے کیوں تو اتنی شرارت پہ شرارت
کہ چین سے اک لمحہ گزارا نہیں بھائی
کیوں خاک میں ملتی گئی وہ عظمتِ رفتہ
اب اونچا کیوں بھارت کا منارا نہیں بھائی
آثارِ محبت ترے مٹتے ہی گئے ہیں
کیوں دل میں ترے پچھلا شرارہ نہیں بھائی
یہ نغمۂ الفت تجھے بھاتا نہیں کیوں کر
یہ لَے بھی تجھے دیکھ ابھارا نہیں بھائی
مانا کہ رقیبوں سے عداوت نہیں اچھی
ثانی کو بھی کیوں تو نے پکارا نہیں بھائی

0
24