دیکھے ہے سماں دیدۂ خوننابہ فشاں اور
کیوں کر نہ بھڑک اٹھے گا پھر عزمِ جواں اور
ایمان فروشوں کو یہ لگتا ہے زیاں، خیر!
اس راہ میں ورنہ تو ہے سود اور، زیاں اور
ہے مرحلۂ دار و رسن کیا مجھے درپیش
کیا میرے لیے رکھا گیا سنگِ گراں اور؟
یہ لب کسی تالے سے بھی بند ہو نہیں سکتے
روکا گیا مجھ کو تو کھلے گی یہ زباں اور
آزاد حرم ہے تو مجھے غم نہیں کوئی
آباد کیا جائے گا اے دوست جہاں اور
سو بار مجھے مار کے زندہ کیا جائے
اللّٰہ عطا کر دے مجھے اب دل و جاں اور
ہاں مجھ کو بچاتی ہے کوئی تیسری طاقت
اس کو کہاں معلوم؟ ہے چشمِ نگراں اور
اس جنگ کے شہیدوں کا ٹھکانہ ہے الگ ہی
اس راہ کے راہی کا زماں اور مکاں اور
ایمان کے عرفان سے دل میرا جری ہے
پیشانی پہ میری تجھے دکھتا ہے نشاں اور
ہر طرح کی قوت اسے حاصل ہے مگر حیف
جاری ہے وہاں سلسلۂ آہ و فغاں اور
'الفاظ و معانی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور'

0
71