جب سے دل سے دل مل گۓ ہیں۔ |
پھر سب کے اصول بدل گۓ ہیں۔ |
کہ شجر سے کونپل پھوٹی ہے۔ |
تب کلیاں پھول بھی کھل گۓ ہیں۔ |
جب سامنے منزل آ گئی ہے۔ |
اب تیرے خلل بھی نکل گۓ ہیں۔ |
تو نے تیز ترقی پائی ہے۔ |
تیرے دشمن بھی مچل گۓ ہیں۔ |
خاموشی سے سختی کا وقت گیا۔ |
جو عذاب سے تھے سب ٹل گۓ ہیں۔ |
اس بار بہار کے آنے سے۔ |
خزاں کے سب ساۓ ڈھل گۓ ہیں۔ |
نورانی پھیلی ہے اب ہر سو۔ |
خوشی سے اب وہ بھی اچھل گۓ ہیں۔ |
معلومات