اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکان رہے۔ |
میرا سارا تن کھینچ لے جب تک جان رہے۔ |
اب کالی سی زلفیں لہراتی ہیں جب جبیں پر۔ |
مشکل جو پڑے حل اس کے پاس آسان رہے۔ |
یہ لباس میں قدرت نے قامت بخشی اتنی۔ |
یہ نشانہ آنکھ بناوٹ تیر کمان رہے۔ |
لٹ جائیں نصیب کی بات چلے چل کر ہی بھلے۔ |
اب کچھ میری طرف اس کا کوئی دھیان رہے۔ |
نہ ہی ہم رہیں گے نہ ہی تم ہو ہمیشہ اس کے لیے۔ |
یوں کہیں گے کہ اب اس کی تربت کا نشان رہے۔ |
اب ان کے خیالوں میں ایسے ہی فدا ہو رہا ہوں۔ |
وہ برابر یاد رہے ہیں اللہ کی شان رہے۔ |
اب ہم نے مقتل گاہ میں جانا بھی چھوڑ دیا۔ |
پردہ حائل رہے اس پرکچھ احسان رہے۔ |
معلومات