چاند اب نکلا زمینِ دل پہ نگرانی کیا۔
منتظر ساری نظر بے سرو سامانی کیا۔
جتنی میری زندگی گزری اندھیرے میں گئی۔
وہ تو گزری اب اجالا ہے یہ سنسانی کیا۔
میرے دل اندر اٹھا ہے شور اب تنہائی کا۔
کچھ سکوں ملتا اے دلبر اب یہ حیرانی کیا۔
بزم میں اب راز کھل جائے بہت بہتر ہو گا۔
خوش ہوں اہلِ بزم اب ان سے چھپا جانی کیا۔
جوش اتنا تم جنوں میں جانو کیا معلوم ہے۔
سامنے ہیں میرے اب چل بے خطر مانی کیا۔

0
1