مشاہدات و خیالات رقص کرتے ہیں
قلم پہ خوں کے نشانات رقص کرتے ہیں
دلوں میں عشق ترا ثبت پیر جیسا ہے
مرید کر کے ملاقات رقص کرتے ہیں
کسی کے ہجر نے مجنون کر دیا ہم کو
اسی جنون میں دن رات رقص کرتے ہیں
عجب حیات میں دلبر کا آنا جانا ہے
وہ لوٹ آئے تو جذبات رقص کرتے ہیں
شکست دیتا ہے مظلوم جب بھی ظالم کو
زدن میں ارض و سماوات رقص کرتے ہیں
کسی کی لاش پہ کچھ لوگ ناچتے ہیں کیوں
غموں کی تھاپ پہ بد ذات رقص کرتے ہیں
انوکھی بات ہے میں خالی ہاتھ لوٹا ہوں
خراب حالی پہ نوحات رقص کرتے ہیں
زہے نصیب ہمیں ایسے چاہنے والے
ہماری کر کے شکایات رقص کرتے ہیں
بدست لائے ہیں برسانے پتیاں وہ بھی
ہماری قبر پہ گل ہات رقص کرتے ہیں
اگر وہ پوچھے ، بتا آنکھ میں نمی کیا ہے
تو کہنا آنکھ میں ذرات رقص کرتے ہیں
دل و دماغ میں اک جنگ جاری ہے سِدْویؔ
درونِ دل سو فسادات رقص کرتے ہیں

0
43