| حسن کا جیسے ہر ایک ڈھب جال ہے |
| آج ہر ایک فن اور کسب جال ہے |
| زندگی قید ہے موت بھی قید سی |
| اہل مذہب کا ہر ایک رب جال ہے |
| جس میں پھنستے ہیں خود آ کے اہلِ خرد |
| تیری دنیا خدایا عجب جال ہے |
| وصل کی روشنی بھی ہے پردہ یہاں |
| ہجر کی بھی تو ہر ایک شب جال ہے |
| جکڑے جاتے ہیں دل خواہشوں میں یہاں |
| یہ جو آزادی ہے یہ بھی اب جال ہے |
| سارے منظر سرابوں کا ہے سلسلہ |
| مثلِ آتش بھڑکتی طلب جال ہے |
| خود سے بھی بھاگنے کا نہیں راستہ |
| جو بھی اندر یا باہر ہے سب جال ہے |
معلومات