نَے لذتِ نگاہ نہ تمکینِ گوش ہے |
مرلی کی تان کیا ہے یہ نائے و نوش ہے |
اب دل میں میرے پھر وہی پچھلا سا جوش ہے |
اور آنکھ تیری پھر وہی ساغر بدوش ہے |
چلنے سے پاؤں ہلتے ہیں ساقی کے بھی یہاں |
اس موسمِ بہار میں یاں کس کو ہوش ہے |
جو تھا مسیحا کل یہاں قاتل وہی ہے آج |
تھا باغباں جو آج وہی گل فروش ہے |
وہ سازِ دل نواز کا نغمہ ہوا ہے بند |
توحید کا بھڑکتا سا شعلہ خموش ہے |
دی ہے تجھے ہی دیدۂ جرأت نگاہِ حق |
تیرا ہی گوش ثانی یہاں حق نیوش ہے |
حق جلوہ گر ہوا ہے مگر کیا ہوا تجھے |
نَے جراتِ نگاہ نہ جوش و خروش ہے |
پچھلے جہاں میں تجھ کو جو دیکھا تھا ایک بار |
آ کر کے اس جہاں میں بھی یہ دل بے ہوش ہے |
سمجھائیں تجھ کو کیا تجھے عقل و دماغ ہے |
تو دیکھتا نہ سنتا ہے نہ چشم و گوش ہے |
آنکھوں کے دشت میں نہیں نوروں کا کچھ غبار |
دریائے دل کی موج ابھی بے خروش ہے |
معلومات