جسم کے دشت میں ہر سمت کیا سناٹا ہے
تم جدا ایسے ہوئے جان جدا ہو جیسے
ہم سمجھتے ہی نہیں تم کو تکبر کیوں ہے
خود کو سمجھے ہو کہ دنیا کے خدا ہو جیسے
یوں لپکتے ہیں مرے نغمۂ پر سوز کی سمت
ہر بشر کے لیے یہ میری صدا ہو جیسے
مری ہر سانس میں یادوں کی تری ایسی مہک
گلشنِ دل میں کوئی پھول کھلا ہو جیسے
سازِ دل کیا ہے اسے کوئی سمجھتا ہی نہیں
سازِ ہر رنگ میں یہ نغمہ بجا ہو جیسے
آ کے یوں چھیڑتی ہے سازِ دلِ خاکستر
آپ کے کوچے کی یہ بادِ صبا ہو جیسے
تہنیت دیتے ہیں یوں آ کے رقیبانِ حرم
اس کے لب پر وہ مری خاص دعا ہو جیسے
دل کے دریاؤں میں سیلابِ بلا آیا ہے
زلفِ پر پیچ کی یہ چھائی گھٹا ہو جیسے
اس کی یادیں مرے دل میں یوں ٹھہر جاتی ہیں
دشتِ پر خار میں اک آبلہ پا ہو جیسے
اب اٹھانے کو چلا تیرے غموں کا یہ پہاڑ
دلِ کمزور سے تنکا بھی اٹھا ہو جیسے

0
50