زندگی سے پوچھ لو اس کی لگن ہیں دوستو
ہم کہ اپنی ذات میں اک انجمن ہیں دوستو
بانٹتے ہو کس لیے تم ہم کو ٹکڑوں میں یہاں
ہم کسی کی آرزو کا اک وطن ہیں دوستو
سوکھ جائیں پھر بھی تم پاؤں تلے مت روندنا
اک طرح سے پھول خوشبو کا بدن ہیں دوستو
جن کے لہجوں میں بغاوت گونجتی ہے آج بھی
ان کے لہجے صبح کی پہلی کرن ہیں دوستو
بے خودی کے رنگ رقصاں ہم میں ہیں جو ہاشمی
بے دھیانی سے کسی کی ہم سخن ہیں دوستو

0
3