آج کی رات ذرا میری رباعی سن لو
عین ممکن ہے کہ پھر مجھ کو اجازت نہ ملے
کُچھ خیالات کی گٹھڑی ہے جسے کھولوں گا
دل سے یہ آخری گٹھڑی بھی اتر جائے تو
چند لمحات کو میں جان مری سو لوں گا
تم کو میں یاد کراتا ہوں مگر رہنے دو
بند قبروں میں جو مدفن ہیں انہیں سونے دو
اب یہ اسرار کرو گی تو بتانا ہے مجھے
اچھا پکا جو بتاؤں تو برا مانو گی
روٹھ جاؤ گی جو مجھ سے تو کماں تانو گی
اور پھر تیر اتارو گی مرے سینے میں
اسی سینے میں جہاں تم نے قدم رکھا تو
اس میں موجود تمناؤں نے بدلے تھے چلن
اب وہ سینہ جو دہکتا تھا تمہاری لو سے
ایسے ویران ہے جیسے کوئی آشوب چمن

32