شب بھر پھر میرے سامنے تیرا عکس رہا۔
خنکی تھی ہوا میں کتنا تیرا لمس رہا۔
یہ نگاہیں پیاسی رہیں ہیں دید کی آس لگی۔
یوں لگا ہے جیسے ساری عمر سے ترس رہا۔
قیدی نے ہر کوشش کی رہائی پانے کی۔
نہ خلاصی ہوئی پابندِ بے جا حبس رہا۔
چاروں سو زمانے میں اب کیسی ہوا ہے چلی۔
یوں لگا جیسے نہ محبت جیسا درس رہا۔
اب نیند نہ آنکھوں میں نہ سکون ہے سانسوں میں۔
کیسا ساون آیا اتنا اب ہَرس رہا۔
ہے یہاں پر کون جو تیری بات کو سنتا ہے۔
اس سارے جہاں میں نہ تیرا کوئی ہم نفس رہا۔
پہلی دنیا ہے نہ پہلے سا تو ہے لیکن۔
اب لگ یوں رہا پہلے سا نہ جیسے شمس رہا۔

0
49