تنکے بہتے جاتے ہوں یہ جیسے وقت کے ریلے میں
کچھ آوازیں بچھڑ گئی ہیں تیرے شور کے میلے میں
جتنے مَیں غم لےآیا ہوں مفت میں تیری دنیا سے
اتنی خوشیاں کیسے ملتیں اِس اک دل کے دھیلے میں
اہلِ درد کا مسلک ہے یہ درد کبھی بدنام نہ ہو
جتنا چاہے رو لینا تم لیکن کہیں اکیلے میں
مرشد اُس کو اپنا کرنا میرے بس کی بات نہیں
مرشد اتنے وصف کہاں ہیں میرے جیسے چیلے میں
تیرے شہر کی گلیوں میں اب بالکل ایسےپھرتا ہوں
جگنو پکڑنے آ نکلا ہو بچہ جیسے بیلے میں

0
32