کیسا ہے تو بت تیرے تو قاصد ہیں کروڑوں |
حالانکہ کئی بت کا پیمبر نہیں ہوتا |
ہے تیری عنایت کہ ہوں برباد ہی برباد |
گر تو نہیں ہوتا تو میں بدتر نہیں ہوتا |
جو دل سے نکل جائے ٹھکانہ نہیں اس کو |
اس گھر کا نکالا ہوا بے گھر نہیں ہوتا |
کیوں چشمِ فسوں گر کی محبت میں سزائیں |
اس بت کا پجاری کبھی کافر نہیں ہوتا |
اچھے کا برے کا مجھے کچھ ہوش نہ رہتا |
ان شربتی آنکھوں کا جو ساغر نہیں ہوتا |
اس جلوۂ بے تاب میں جل جاتا خوشی سے |
یہ گیسوئے خم دار جو رخ پر نہیں ہوتا |
اس واسطے ہر وار پہ ہوتا ہے تشکر |
وہ میری شکایت سے ستمگر نہیں ہوتا |
ہاں مجھ کو شہادت کی سعادت بھی نہ ملتی |
گر تیری اداؤں کا یہ خنجر نہیں ہوتا |
پھر تیری کماں کو کبھی ملتی نہیں شہرت |
یہ تیر مرے دل کے جو اندر نہیں ہوتا |
تو سینۂ گیتی پہ جو پیدا نہیں ہوتا |
ہے اپنا عقیدہ کبھی محشر نہیں ہوتا |
بننا ہے سکندر تجھے تو دل کو فتح کر |
دنیا کو فتح کر کے سکندر نہیں ہوتا |
گر تیری نظر اس پہ نہ پڑتی کبھی ساقی |
اس سارے جہاں کا بھی یہ منظر نہیں ہوتا |
ہوتا نہ جو ثانی کا فسانہ بتِ نازک |
تو سب کی نظر کا کبھی محور نہیں ہوتا |
ہوتا جو ترے دل میں کبھی طور کا جلوہ |
ان کعبہ کلیسا کا تو چکر نہیں ہوتا |
سورج کے بنا ہم نے کبھی دن نہیں دیکھا |
ہاں بت نہیں ہوتے تو یہ آزر نہیں ہوتا |
معلومات