وہ پھول سر چڑھا ہے شعلوں میں جو پلا ہے |
کل سرخ رو وہی ہیں جو آج دار پر ہیں |
اے بادِ بے وفائی آ کر انھیں بجھا دے |
جتنے چراغِ حسرت دل کے مزار پر ہیں |
یہ کالے ہونٹ میرے یوں لال ہونٹ پر ہیں |
گویا کہ چند بھنورے میٹھے انار پر ہیں |
فرہاد ہو کہ مجنوں پرتو تھے سب ہی میرے |
جتنے تھے مارِ الفت وہ خاکسار پر ہیں |
ایفائے عہد تیرا کیا حشر میں ہی ہوگا |
وعدے ہیں سب کے پورے ہم انتظار پر ہیں |
بیدار کر رہا ہے خوابیدہ زندگی کو |
شبنم پہ اشک میرے شعلے شرار پر ہیں |
اہلِ خرد نہ روکو پینے دو جامِ لب بھی |
جو بھی ہیں ہوش باقی مے کے خمار پر ہیں |
جامِ دہن تو ثانی بھرپور ہے زہر سے |
بوسے مرے لبوں کے لب کے کنار پر ہیں |
وہ دوست ہو کہ دشمن یاری ہے سب سے اپنی |
ثانی یہ پائے وحشت گل پر نہ خار پر ہیں |
دنیا تماش بیں تھی دنیا تماش بیں ہے |
نمرود تخت پر ہے براہیم نار پر ہیں |
پانی میں کیسی آتش رگِ سنگ میں کیا شعلہ |
ان لالہ گل سے پوچھو جو آبشار پر ہیں |
معلومات