اس نے مجھے اب جان سے مارنے پھر سے قسم کھا رکھی ہے۔
میں نے اسے ایمان سے پھر سے پکارنے کی اٹھا رکھی ہے ۔
کچھ ہی سمجھ کر اس نے اپنی نظر میری جانب کی ہے۔
ہم نے کب کی طوفان سے بگاڑنے کی بنا رکھی ہے۔
بگڑے گی نہیں تو بن ہی جاۓ گی کچھ تو کرو تم بھی۔
ہم نے بھی انہیں آسماں سے اتارنے کی لگا رکھی ہے ۔
آنکھوں سے آنسو جل جائیں شعلے ہی بھڑک جائیں۔
ہم نے بھی اب اک ایسے انسان سے بازی لگا رکھی ہے۔
اب بڑھا چڑھا کر پلاتے ہیں پی پلا کے بہکاتے۔
آج میان سے پھر تلوار نکال کے اب ٹکا رکھی ہے۔

0
56