اس نے مجھے اب جان سے مارنے پھر سے قسم کھا رکھی ہے۔ |
میں نے اسے ایمان سے پھر سے پکارنے کی اٹھا رکھی ہے ۔ |
کچھ ہی سمجھ کر اس نے اپنی نظر میری جانب کی ہے۔ |
ہم نے کب کی طوفان سے بگاڑنے کی بنا رکھی ہے۔ |
بگڑے گی نہیں تو بن ہی جاۓ گی کچھ تو کرو تم بھی۔ |
ہم نے بھی انہیں آسماں سے اتارنے کی لگا رکھی ہے ۔ |
آنکھوں سے آنسو جل جائیں شعلے ہی بھڑک جائیں۔ |
ہم نے بھی اب اک ایسے انسان سے بازی لگا رکھی ہے۔ |
اب بڑھا چڑھا کر پلاتے ہیں پی پلا کے بہکاتے۔ |
آج میان سے پھر تلوار نکال کے اب ٹکا رکھی ہے۔ |
معلومات