زندگی کیا بسَر ہو گئی
رات گذری سحر ہو گئی
اپنی پہلی ملاقات کی
سب کو اس کی خبر ہو گئی
ماں کی جب یاد آتی گئی
خود بخود چشم تر ہوگئی
یار کی دید اکسیر ہے
ہر دوا بے اثر ہوگئی
رہیں محتاط سب روشن
یہ وبا ہم سفر ہو گئی

62