ہے نقش دل پہ کندہ وہ یار میرے ہمدم |
یکتا ہے جس کا ہر اک کردار میرے ہمدم |
بامِ عروج پر ہیں اوصاف اُس کے سارے |
دل موہ لے وہ شیریں گفتار میرے ہمدم |
سب فیض اُس کے در سے ملتے ہیں عاشقوں کو |
رہتا نہ کوئی بے برگ و بار میرے ہمدم |
دنیا کی دلدلوں سے وہ سب کو ہی نکالے |
صحراکو جو کرے ہے گلزار میرے ہمدم |
میدان قرب کا خالی ہے چلے بھی آؤ |
بک جاؤ اُس کے جا کر بازار میرے ہمدم |
دل کی ترے وہ حالت کو خوب جانتا ہے |
تو غیر سے کرے کیوں اظہار میرے ہمدم |
لَو عشق کی ہو جائے گر ایک بار روشن |
پھر جگمگائے سارا سنسار میرے ہمدم |
جس دل پہ وہ تجلی اپنی دکھائے یارو |
کُھلتے ہیں پھر عجب واں اسرار میرے ہمدم |
لذت سے قرب کی جو ہو کوئی آشنا تو |
اک نشے میں وہ رہتا سرشار میرے ہمدم |
وہ دور کرتا ہے جب اِس دل سے تیرگی کو |
ہوں سُونےسُونے آنگن گلنار میرے ہمدم |
سب لا علاج کہتے بیمارِ عشق کو ہیں |
درماں ہے اس کا دیدارِ یار میرے ہمدم |
محموؔد سر جھکا کے ہی سب مقام پائیں |
عاجز ہی پاتے ہیں اس کا پیار میرے ہمدم |
کلام وسیم احمد محمودؔ بٹ |
معلومات