| کبھی تیرا دل بھی ہمارا ہوا تھا |
| مگر پھر ہمارا کنارا ہوا تھا |
| مجھے بھی کبھی تیری یادوں نے تھاما |
| میں تم سے بھی بڑھ کر تمہارا ہوا تھا |
| نظر اس فلک کو دکھاتی تھی اپنی |
| وہی شخص اپنا ستارہ ہوا تھا |
| چرائ نظر تم نے روٹھے بھی کیا تم |
| کہاں تب ہمارا گزارا ہوا تھا |
| محبت کی دنیا ہی وہ اک گلی ہے |
| جہاں ہر قدم پر خسارہ ہوا تھا |
| کبھی چپ رہے ہم کبھی رو دئے ہم |
| قلم پھر یہ اپنا سہارا ہوا تھا |
| ہم اپنی خودی بھی گنوا بیٹھے فیصلؔ |
| تری زلف کا جب اشارہ ہوا تھا |
معلومات