کبھی تیرا دل بھی ہمارا ہوا تھا
مگر پھر ہمارا کنارا ہوا تھا
مجھے بھی کبھی تیری یادوں نے تھاما
میں تم سے بھی بڑھ کر تمہارا ہوا تھا
نظر اس فلک کو دکھاتی تھی اپنی
وہی شخص اپنا ستارہ ہوا تھا
چرائ نظر تم نے روٹھے بھی کیا تم
کہاں تب ہمارا گزارا ہوا تھا
محبت کی دنیا ہی وہ اک گلی ہے
جہاں ہر قدم پر خسارہ ہوا تھا
کبھی چپ رہے ہم کبھی رو دئے ہم
قلم پھر یہ اپنا سہارا ہوا تھا
ہم اپنی خودی بھی گنوا بیٹھے فیصلؔ
تری زلف کا جب اشارہ ہوا تھا

0
25