| تیری عنایتوں کا گر میں حساب لکھوں |
| یا رب کیا کیا اور کتنی کتاب لکھوں |
| تیری عطا مِری ان باتوں پے بھی کثر ہے |
| میں خود کبھی نہ جن پر کوئی ثواب لکھوں |
| ہر ذرّہ اک نئی دنیا کے دریچے کھولے |
| پھر اک کے بعد اک میں کتنے ہی باب لکھوں |
| یہ انتہا ہے میرے کل علم کی کہ میں تَو |
| اک بات کا نہ پورا کوئی جواب لکھوں |
| کتنا عیاں ہے تو اس نیرنگیء جہاں میں |
| کیسے تجھے پھر اور کیونکر با حجاب لکھوں |
| گر دور کردے مجھ کو تجھ سے خدا کہیں جو |
| میں نعمتوں کو ایسی کیوں نہ عذاب لکھوں |
| جو عاجزی نہیں تیرے پاس اے ظفرؔ تَو |
| اپنے ہی ہاتھوں اپنا خانہ خراب لکھوں |
معلومات