رستے سے ہٹتا بھی نہیں اور مجھے کچھ دکھائی بھی نہیں دیتا۔ |
پھرباہر سے سنورتا ہے اندر کی صفائی بھی نہیں دیتا۔ |
ہم وہ کر کے دکھائیں کہ ڈور کی طرح آۓ جانب منزل۔ |
وہ آواز بھی اب نہیں دیتا اور سنائی بھی نہیں دیتا۔ |
رت جگا ہے اب رات کا منظر ہے منظر بے حد سہانا ہے۔ |
ایسے قید کیا ہے اس نے کہ قیدی دہائی بھی نہیں دیتا۔ |
اب دامن معصوم ہی بن کے بچا جاتا ہے ہمیں سب معلوم۔ |
کھیلتا ہے یہ کھیل کسی کو کچھ سکھلائی بھی نہیں دیتا۔ |
بادل آئیں جائیں سب ممکن ہے کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ |
یہ عنوان ہی ایسا ہے اب کچھ ہی سجھائی بھی نہیں دیتا۔ |
وہ جو علاج بھی گر چاہے تو بے لوث کر دے گا یہ سارا۔ |
عام ہو جاۓ گا ڈر سے اب کوئی دوائی بھی نہیں دیتا۔ |
وہ یہ بات ہی جانتا سب ہے کہ اس کی شہرت عام ہو جاۓ۔ |
شہرت کا ڈر لے بیٹھا ہے اور شناسائی بھی نہیں دیتا۔ |
وہ ہی خدا رہے گا واللہ خدا رہے گا وہ ہمیشہ تک ہے۔ |
کام بھی کر جاتا ہے مگر کچھ ہی گویائی بھی نہیں دیتا۔ |
بندہ یہ آخر کار کہاں پہ پہنچے تب رکنا ہو گا پھر۔ |
پوری سمجھ رکھتا ہے مگر وہ جویائی بھی نہیں دیتا۔ |
میں نے بھی اپنے ہی تجربے پر بچ بچا نکلنا سیکھا ہے جو۔ |
ہاتھ یہ پکڑا ہے کب کہاں اپنی ہی صفائی بھی نہیں دیتا۔ |
معلومات