ہوا کے دوش پہ خوشبو کا کارواں چمکے
گلاب چھیڑے کوئی ساز، باغباں چمکے
لبوں پہ قُطرۂ شبنم کا رقص برپا ہے
ہر ایک پھول کے چہرے پہ کہکشاں چمکے
چٹان پر کوئی دریا لکھے قصیدے کو
کسی صدف میں چھپی موتیوں کی جاں چمکے
خنک ہوا نے چھوا جب لبوں کو شبنم کے
فضا کے سینے میں بجلی کا کارواں چمکے
ہر ایک پتے پہ قطرہ گرا جو بارش کا
چراغ بن کے وہ گوہر سرِ جہاں چمکے
جو برگ زرد ہوا میں اڑا تو اے ہمدم
بچھڑ کے پیڑ سے، یادوں کا کارواں چمکے
وہ ایک جھیل پہ قوسِ قزح کا منظر تھا
زمیں سے اٹھ کر ستاروں کا آسماں چمکے
زمیں کے سینے سے اُگتے ہوئے شجر دیکھو
ہر ایک ٹہنی پہ قدرت کا سائباں چمکے
درخت رقص میں ہیں، جھیل مہکے
زمین ہنس دے تو جیسے کوئی سماں چمکے
کسی کی زلف سنور جائے چاندنی کی طرح
تو شب کے دامنِ خاموش میں گماں چمکے
جو آئینہ بھی اٹھا لوں، تری جھلک دیکھوں
ہر ایک عکس میں تیرا کوئی بیاں چمکے
قدم قدم پہ ہے آہٹ کسی کے آنے کی
ہر ایک راہ پہ خالدؔ کوئی نشاں چمکے

19