ان کی چشم ناز یوں ہم سے سخن سازی کرے |
جیسے فطرت زندگی کے غم کی غمازی کرے |
سو جتن سے دل مرا سینے سے نکلا چاہے ہے |
کام کچھ ایسا ہی اف تیری خوش آوازی کرے |
لڑ سکیں گے اس طرح تیری محبت کا جہاد |
مولوی دل کو بنا دے آنکھ کو غازی کرے |
منشاء دین و شریعت ہے تصوف کا طریق |
کوئی تن سازی سے پہلے کیوں نہ دل سازی کرے |
حال کی بد حالیوں کا حال تو جو ہے سو ہے |
پھر خلش ماضی کی بھی کچھ رخنہ اندازی کرے |
عقل پر ہوتا نہیں ہے آیت جاں کا نزول |
سو یہ چوپائے کی مانند خوب تن سازی کرے |
قتل کی تعبیر اس سے ہی محبت میں ہوئی |
آنکھ کے جن زاویوں سے شعبدہ بازی کرے |
کائنات حسن میں بکھرا کیے نقش و نگار |
تیری صورت کی مصور چہرہ پردازی کرے |
معلومات