راحتیں دل کو روپوش سی لگتی ہیں۔
ساری شامیں بھی خاموش سی لگتی ہیں۔
یادیں آتی ہیں افسانے بن جاتے ہیں۔
ایسی باتیں بھی مخدوش سی لگتی ہیں۔
چھوٹے دامن تو پھر ٹوٹ دل جاتا ہے۔
وادیاں کتنی منفوش سی لگتی ہیں۔
بانٹو الفت تو حالات پھر بدلیں گے۔
ساری شرطیں سیہ پوش سی لگتی ہیں۔
اب نشیلی یہ گہری سیہ آنکھیں بھی۔
ساری شامیں بھی مدہوش سی لگتی ہیں۔
آنکھوں ہیں منتظر کیوں نظر پنہاں ہو۔
مستیاں دیکھو سر ہوش سی لگتی ہیں۔
زندگی سے کوئی کیسے اب خوش نہیں۔
سختیاں آئیں آغوش سی لگتی ہیں۔
کتنی سندر ہیں شکلیں ہو مرتبت ۔
چہروں سے نسلیں پرجوش سی لگتی ہیں۔
تلخیاں کیوں سبک دوش سی لگتی ہیں۔
الفتیں کیوں فراموش سی لگتی ہیں۔

0
2