ہر روایت کی سرحد سے جو پار ہو
مستقل ہے جو خود اپنا معیار ہو
ورنہ ہونے کے اب تک مراحل میں ہے
وہ ہی کامل ہے حق کی جو پرکار ہو
وہ کہانی بدلنے کے قابل نہیں
جو کہانی کا بس ایک کردار ہو
خاک کی قید سے ہو جو آزاد تو
تم ہی ہستی ہو ہستی کی دستار ہو
اب یہی زندگی کا تقاضا ہے بس
آدمی آدمی کا طرف دار ہو
خود سے پوشیدگی کی علامت ہے یہ
چارا گر ہو کے بھی تم جو لاچار ہو
اُس کا ہونا ہی ہونا ہے افضل یہاں
وہ جو خود اپنی دنیا کا معمار ہو

0
7