ریشم سے حسیں ناز سے کھیلے ہوئے بچے
اب خون کی ہولی میں سلگتے ہوئے بچے
ماں باپ کی آغوش سے جو رہتے تھے جڑ کر
اب آگ کی آغوش میں سہمے ہوئے بچے
ایک لمحہ جنہیں پیاس کا برداشت نہیں تھا
ہفتوں سے وہی پیاس کے مارے ہوئے بچے
جن کو نہ کبھی دھوپ نہ سائے سے تھا مطلب
اب راستوں کی دھوپ میں چھائے ہوئے بچے
جو غیر کے گھر میں بھی کبھی سوتے نہیں تھے
اب راستوں میں دیکھ لو سوتے ہوئے بچے
اس روز قیامت کو ذرا سوچ لو لوگو
رب سے کہیں گے رو کے کیا روتے ہوئے بچے
ہم لوگ ہیں آوارہ زمانوں کے مسافر
جو بھول گئے حال کے مارے ہوئے بچے
از قلم غلامٓ ِحسین

9