پھر آپ چاہے ان کو خدا بھی بنائیے
پہلے درندہ وحشی کو انساں بنائیے
دل میں تو پہلے درد کا طوفان لائیے
پھر دردِ جاں کو بھی غمِ جاناں بنائیے
غم ہائے جاناں کے ہی جگر میں کھلائیں پھول
ویرانیوں کو یعنی گلستاں بنائیے
یادِ ستم گراں میں تو سو بار روئیے
ان موتیوں کو زینتِ داماں بنائیے
ثانی محبتوں کی رہِ گل میں دوڑیے
اس شاعری کو رشتۂ دوراں بنائیے
ایسی ٹھسک سے محفلِ دل کو ہلائیے
اچھی سی جان والے کو بے جاں بنائیے
ان سنگھیوں کے دل میں ہے بس ایک ہی امنگ
قرآں کو وید وید کو قرآں بنائیے
ہیں کب سے منتظر، ملیں مژگاں کی دعوتیں
محفل میں اپنی کب ہمیں مہماں بنائیے
کتنے شہید ہو چکے کوچے میں اس کے آج
اپنے بھی قتل کا کوئی ساماں بنائیے

0
32