مری جانِ وفا میں یہ نہیں دشمن کہ تیرا ہوں |
مجھے شبِ الم سا بھول جا میں بس اندھیرا ہوں |
خبر کچھ بھی نہیں کب اشکوں سے سیراب ہو مٹی |
یہاں کھل بھی نہ سکے خار میں وہ سخت صحرا ہوں |
الگ ہیں مجھ سے دنیا اور اس کی وارداتیں سب |
اجڑ ہے جو بچھڑ ہےجو گیا ان کا بسیرا ہوں |
مجھے مت پیار کر اور ہونٹوں سے مت چوم تو جاناں |
مئے ہوں میں گو بگڑی اور گناہِ بد کبیرہ ہوں |
جو جیسا ہو عکس اس کو میں بتلا دیتا ہوں آخر |
رواں میں ہوں نہیں شفاف بس پانی جو ٹھہرا ہوں |
کہ حسبِ زندگی ہوجا کسی کا پر کہہ دے آخر |
عبیدِ باوفا میں ہی ترا تھا اور میں تیرا ہوں |
معلومات