اسے کس نگاہ سے دیکھیے، کہ ادا تو ساری بلا کی ہے |
ابھی دل میں رونقِ وہم و ظن مری چشمِ عکس نما کی ہے |
تو مری زبانِ غزل سے سن، جو ستم ظریفی ہے عشق کی |
وہ ستم تھا حسن کے شوق میں، یہ کرم تلافی جفا کی ہے |
رہا فیضِ گل سے یوں بہرہ مند جو مشامِ بلبلِ دردمند |
ہے جو جا بجا یہاں رقصِ بو، تو یہ شوخی دستِ صبا کی ہے |
مرے واسطے بھی نظارے ہیں، تری راہ میں بھی ستارے ہیں |
سو چمک بھی برقِ ادا کی ہے، سو دھنک بھی جسم نما کی ہے |
ہیں ابھی ضمیرِ صدف میں چند خزف کی جلوہ نمائیاں |
ابھی روشنی سی نگاہ میں کسی سنگِ خواب سرا کی ہے |
یوں شرارے پھوٹتے جاتے ہیں مری ضربِ خارا شگاف سے |
جو بہار عزمِ جواں پہ ہے، وہ طیورِ تلخ نوا کی ہے |
مری آہ کا مری چاہ کا کیا مقام تیری نگاہ میں |
جو ہے کشمکش جو ہے چپقلش سو وقارِ دستِ دعا کی ہے |
وہی میری دن کی ریاضتیں وہی میری شب کی عبادتیں! |
مرے دل میں پھوٹتی دم بہ دم یہ شعاع غارِ حراء کی ہے |
دلِ ریزہ ریزہ بھی دیکھ لو تنِ داغ داغ بھی دیکھ لو |
ہے نظیر اس کی نگاہ کی یہ لکیر جس کفِ پا کی ہے |
مجھے اب بھی اسکی ہے جستجو مجھے اب بھی اسکی ہے آرزو |
وہ طلب جو مہر و وفا کی ہے جو ثوابِ صدق و صفا کی ہے |
نہ ہمارا بس نہ تمہارا بس جو رہی تو اس کی ہی دسترس |
نہ ہماری ہے نہ تمہاری ہے یہ زمین ساری خدا کی ہے |
نہ حجاب ہے نہ نقاب ہے ، ہے اگر تو جوشِ شباب ہے |
کہ قبائے گل پہ ابھی تلک وہ گرفت دستِ صبا کی ہے |
نہ مشامِ جاں میں کوئی سکوں ہے اگر تو ہے وہ ترا فسوں |
جو مہک ہے بادِ سموم کی جو ہوا ہے دشتِ بلا کی ہے |
معلومات