خار چبھتے ہیں پھول جننے سے
لوگ ڈرتے ہیں ساتھ چلنے سے
ہاتھ ملتے ہو اسکو کھو کر تم
کون ملتا ہے ہاتھ ملنے سے
عمر ڈھلتا ہوا یہ سایہ ہے
دن نکلتا ہے رات ڈھلنے سے
اک اندھیرا سا ہے فضاؤں میں
راکھ اڑتی ہے خواب جلنے سے
غیر دیں گے اگر سہارا تو
گر پڑوں گا میں یوں سنبھلنے سے
خوف رہتا ہے گھر کے چھننے کا
گھر سے باہر ذرا نکلنے سے
لفظ پاتے ہیں بھیک معنی کی
اس کے سننے سے اس کے کہنے سے
ظلم کرنا ہی ظلم تھوڑی ہے
ظلم بڑھتا ہے ظلم سہنے سے
بس دھڑکنا بھی موت ہے اس کی
دل تو زندہ ہے بس تڑپنے سے
چاند تارے بھی گو چمکتے ہیں
رہ چمکتی ہے دل چمکنے سے

0
31