یونہی عمریں گزار بیٹھے ہیں
بر سرِ دار یار بیٹھے ہیں
شاہ کوئی اور تھا چنا ہم نے
پھر کیوں یہ شاہکار بیٹھے ہیں
کتنے سادہ ہیں کہ محافظ پہ
کر کے ہم اعتبار بیٹھے ہیں
ہم نے پالا تمام عمر جنہیں
بنے پروردگار بیٹھے ہیں
انہیں جنگ ہارنے کی عادت تھی
اب چناوٴ بھی ہار بیٹھے ہیں
ہمیں دشمن بھی کیا ہرائے گا
ہم تو اپنوں سے ہار بیٹھے ہیں
خوں شہیدوں کا رنگ لائے گا
لیے یہ انتظار بیٹھے ہیں
کوئی پوچھے یہ آج ظالمؔ سے
آپ کیوں اشک بار بیٹھے ہیں

0
1