یہ دنیا ہے فقط اک خواب، جاگا جس نے وہی کامیاب نکلا |
جو بکتا خواہشوں کے ہاتھ، وہی محروم و خوار نکلا |
امیری ہے فقط اک آزمائش، فقیری راز کی دولت |
کسی کو تاج، کسی کو درد، ہر اک کو اپنا حساب نکلا |
غریبوں کی دعاؤں میں وہ حرارت، جو محل میں کب ہو پاتی |
سنے جس کو سحر کا نعرہ، وہی شب میں آفتاب نکلا |
نہ دیکھو زر، نہ دیکھو زور، فقط دیکھو عمل کا پیمانہ |
جہاں کردار سونا ہو، وہی انسان نایاب نکلا |
ہمیں بخشے گئے سب ساز، سب راحت، سبھی نعمت |
مگر دل خواہشوں کا بندہ، عمل سے پھر بھی خراب نکلا |
جو شاکر ہو، وہی سلطان، جو صابر ہو، وہی درویش |
کہتی ہے شاکرہ یہی فقط، “خودی والا ہی لاجواب” نکلا |
دوڑو اس راہ میں جس کا کنارہ عرش کے نزدیک ہو |
یہ دنیا دو گھڑی کا میلہ، اصل میدان تو حساب نکلا |
معلومات