ایک میں کہ تری ہر بات سے نفرت ہے مجھے |
ایک دل ہے کہ تری سمت بڑھا جاتا ہے |
تری تصویر سے آنکھوں کو کوئی نسبت ہے |
ترا انداز بھی اس دل میں سما جاتا ہے |
یا مرے ہاتھ لکیروں سے ہوئے بے گانے |
یا ستاروں کو کہیں اور رکھا جاتا ہے |
روشنی آنکھوں کی پلکوں سے اتر جاتی ہے |
دردِ دل آرزو رگ رگ میں سمو جاتا ہے |
معلومات