زندگی اب خود سے بھی بیزار کر دے گی مجھے
میری ہی راہوں کی پھر دیوار کر دے گی مجھے
جس قدر دل میں عبادت کی بڑھی ہے روشنی
پھر یہ نیکی ہی کہیں بدکار کر دے گی مجھے
ہے وہی آشفتگی سجدے کے قابل ہم نشیں
عشق کے مقتل میں جو تلوار کر دے گی مجھے
مشکلوں کے جس بھنور میں بھی ابھی دل ہو مگر
دیکھنا موجِ بلا ہی پار کر دے گی مجھے
ہاں ترے دیدار کا موقع تری آمد کا پل
کیا خوشی ہے غم سے جو دوچار کر دے گی مجھے
لوگ کیوں میری محبت کی کریں تقلید پھر
دل لگی کی راہ اب دشوار کر دے گی مجھے
لوٹ کر سرمایہ میرا لے کے سب کچھ جائے گی
یا سپردِ طالعِ بیدار کر دے گی مجھے
ثانی ارریاوی

28