زندگی اب خود سے بھی بیزار کر دے گی مجھے |
میری ہی راہوں کی پھر دیوار کر دے گی مجھے |
جس قدر دل میں عبادت کی بڑھی ہے روشنی |
پھر یہ نیکی ہی کہیں بدکار کر دے گی مجھے |
ہے وہی آشفتگی سجدے کے قابل ہم نشیں |
عشق کے مقتل میں جو تلوار کر دے گی مجھے |
مشکلوں کے جس بھنور میں بھی ابھی دل ہو مگر |
دیکھنا موجِ بلا ہی پار کر دے گی مجھے |
ہاں ترے دیدار کا موقع تری آمد کا پل |
کیا خوشی ہے غم سے جو دوچار کر دے گی مجھے |
لوگ کیوں میری محبت کی کریں تقلید پھر |
دل لگی کی راہ اب دشوار کر دے گی مجھے |
لوٹ کر سرمایہ میرا لے کے سب کچھ جائے گی |
یا سپردِ طالعِ بیدار کر دے گی مجھے |
ثانی ارریاوی |
معلومات