اک سوختہ ساماں شہہ فرزند یہ بولا
تہذیب و تمدن مرے آباء کا ہے کچھ یاد
تقدیر سے میرے تھے یہ شرمندہ ستارے
کہ سینۂ گیتی بھی تھا بے نالہ و فریاد
ہر ذرہ یہاں تھا مہہِ خورشید جہاں تاب
سب رند ہوا میرا کیا رومی کیا بہزاد
سب ہی تھے مرے ادنی تراشیدہ سے اصنام
تم جس کے پجاری ہوئے کیا مجنوں کیا فرہاد
اس مکتبِ شیشہ میں تھے سب میرے ہی شاگرد
حتیٰ کہ سکندر کا بھی میں ہی رہا استاد
میرے یدِ بیضا سے ہوا موسیٰ منور
اپنے دمِ پر سوز سے شعلہ کیا ایجاد
بے چارہ بھی بے دردی سے بیمار پڑا تھا
میری ہی دواؤں سے مسیحا ہوا کچھ شاد
ہیبت سے مری رائی ہوا کوہِ ہمالہ
کہ میرے اشاروں میں بھی دکھتا تھا وہ فولاد
اک پھونک سے ٹھنڈا کیا آتش کدہ ایران
تھا صورِ اسرافیل کہ یزداں کا تھا افتاد
سب ساغر و شیشے جو تھے الحاد سے لبریز
تھوکر سے ہی مے خانۂ یورپ ہوا برباد

0
35