تربت پہ خاک ڈالیے نہ کوئے یار کی
ورنہ رقیب ہوگی طبیعت مزار کی
میرے جنوں پہ کیس بہت آپ نے کیے
حالت مگر نہ دیکھی نگاہوں کے دھار کی
تجھ سے نگاہِ یار شکایت نہیں مجھے
ان کی جفا کو میں نے تو طاعت شمار کی
شہرِ غریب کی بھی لو قسمت کھلی ہے یوں
اس نے تو آج سیر کی میرے دوار کی
اک دشتِ پر بہار کو چلنے لگا ہے دل
پھر یاد آ رہی ہے مجھے لالہ زار کی
اب دیکھیے کیا آتی ہیں گل پر مصیبتیں
کی تم نے پھول سے یہ شکایت کیوں خار کی
بس ہجر میں ہی میں کٹتی یہ عمرِ عزیز تر
گھڑیاں کیوں ختم ہوتی ہیں اب انتظار کی
راہِ رقیب پر بھی چلے بار بار ہم
پٹنے کی ہم نے مستی جو دل پر سوار کی
دو چار خس ہی رکھیے مگر بہرِ آشیاں
ہونے لگی ہے ختم یہ رونق بہار کی

0
42