اس کی شبنمی آنکھوں سے جو آنسو ٹپکے ہے۔
جام جم میں آئے ہے جم سے جام چھلکے ہے۔
ایک ہلکی ہلچل میرے بدن میں ہوتی ہے۔
اک عجیب کیفیت جسم تھر سے تھرکے ہے۔
تیری آنکھیں کیوں کر کھلتی نہیں ہیں پورے سے۔
آنکھ آنکھ سے ملتی دھک سے دل بھی دھڑکے ہے۔
دیکھو آہ نکلی حیرانگی ہے ہائے سے۔
کس بہادری سے اب بجلی بن کے کڑکے ہے۔
ہم نے اس کا دامن پکڑا نہیں جو چھوڑیں گے۔
اپنے کو چھڑا جانے کے لیے دے جھٹکے ہے۔
دیکھ رخ ہوا کا ہم پھر بھی ساتھ چلتے ہیں۔
ہاتھ پکڑا ہے لیکن جانے کیوں وہ چھٹکے ہے۔
اپنی آنکھوں کا تارا تھا بے حد وہ پیارا تھا۔
جانے کیا ہوا کانٹا بن کے کیسے کھٹکے ہے۔
اپنی سوچ بدلی ہے چل پڑیں کہ رک جائیں۔
راستے میں روڑے اٹکائے کھنکے پھٹکے ہے۔
مستی ہے نشہ ہے کیوں سرزنش تو کرتا ہے۔
بڑھتا چل نشانے پر اب بے خود ہو چمکے ہے۔
اپنی ضد کو چھوڑو کچھ فہم لو فراست سے۔
چمکا ہے ستارہ تیرا نصیب دمکے ہے۔
میری ہر توقع سے بڑھ کے کام کرتا ہے۔
خاکی آگ روکو کیوں شعلے طرز بھڑکے ہے۔

0
6