نہ تو میں ہی خود سے ہوں مطمئن نہ یوں ہے کہ موجِ بلا نہیں |
پہ خدائے پاک کے روبرو کبھی اٹھتے دستِ دعا نہیں |
یہ غرور و زعم ہے ناروا، یہ ستم یہ ظلم ہے بے سبب |
تہِ خاک تجھ کو بھی ہونا ہے، تو بھی آدمی ہے خدا نہیں |
تو کہ اس کی زلف کی خوشبو ہے، ترا ایک اپنا مقام ہے |
تری رو میں بادِ نسیم ہے، تو اسیرِ بادِ صبا نہیں |
مجھے مضطرب ہی نہ کر سکی، وہ خلش وہ شوخیِ نقشِ پا |
تری چال میں وہ ادا نہیں، تری آنکھوں میں بھی حیا نہیں |
نہ فقیہِ شرع کے حکم پر نہ امیرِ شہر کے امر پر |
ترے در کو چھوڑ کے اے خدا میں کسی کے در پہ جھکا نہیں |
مرے دل کو آج سکوں نہیں، مری جان آج ہے مضطرب |
ترے لب کی کلیاں کھِلی نہیں ترا تیرِ چشم چلا نہیں |
ترے ظلم کی ہوں وہ آندھیاں یا تھپیڑے موجِ بلا کے ہوں |
مرا عشق ایسا چراغ ہے جو کسی بھی وقت بجھا نہیں |
تو بھی بدگمان ہے بے سبب، ہے ابھی بھی اس کو تری طلب |
اسے تنہا ایسے نہ چھوڑ کہ ترا ثانی اتنا برا نہیں |
معلومات