اسے قدرت نے وہ طاقت دی کہ اک لحظہ میں |
کئی خاموش جرائم کو دکھا سکتا ہے |
توڑ کے ظلم کے رنگین سے ان پنجوں کو |
سبھی ظالم کی نخوت کو مٹا سکتا ہے |
ظلم کر کے تو چھپے لاکھ کمیں گاہوں میں |
ترے معصوم سے پردوں کو ہٹا دے گا یہ |
تو کرے لاکھ یہ دعویٰ کہ میں منصف ہی ہوا |
ترے انصاف کا معیار دکھا دے گا یہ |
کوئی کتنا ہی بنے قیصر و کسریٰ کی طرح |
اس کی ٹھوکر میں تخت سبھی کا تاراج |
یہی دنیا کے لیے باعثِ صد زینت ہے |
جس نے تھاما ہے اسے وہ ہے جہاں کا سرتاج |
یہی ہر دور میں مظلوم کا سرتاج رہا |
اسی دربار میں کمزوروں نے فریاد کیا |
بس قلم کی جو چلی بادِ صبا دنیا میں |
کتنے ویرانوں کو اک لحظہ میں آباد کیا |
اس سے تقدیر کی دنیا کئی آباد ہوئی |
اس نے الفت کے جلائے ہیں بہت سارے چراغ |
اس نے کچھ درسِ وفا ایسے دیے دنیا کو |
کہ قلندر کو بھی مل سکتا نہیں جس کا سراغ |
اس نے تہذیب کے بت خانے میں رکھی وہ شمع |
اس سے مغرب کے صنم خانے ہوئے ہیں روشن |
علم کے اس نے لٹائے ہیں وہ موتی جس سے |
سبھی بے علموں نے یوں آج بھرا ہے دامن |
معلومات