چپکے چپکے جسے پیار کرتے رہے
کچھ بھی کہنے سے ہم صدیوں ڈرتے رہے
آؤ اس کی سنائیں تمہیں داستاں
جس کی خاطر تھے ہم بھی سنورتے رہے
ایک دن بے حجابانہ دیکھا اسے
دل میں جزبات دن بھر نکھرتے رہے
گھر جو پہنچے تو سوچوں میں تھا بس وہی
رات بھر صحن میں چلتے پھرتے رہے
کب ہوا پیار ہم کو پتہ نا چلا
سب دلی رابطے پھر بگڑتے رہے
جو ہوئی صبح تو چل پڑے اس طرف
جس جگہ وہ تھے ہم کو نظرتے رہے
ہم بھی ان کی طرف دھیرے دھیرے چلے
دھیمے دھیمے سے وہ آگے بڑھتے رہے
پھر محبت کا اظہار ان سے کیا
میٹھا میٹھا وہ ہس کے اِترتے رہے
ہم سے انجانے میں یا کہو پیار میں
پھول رستے میں اس کے بکھرتے رہے
خواہشیں ہم نے کی جو بھی پوری ہوئیں
پورے وعدوں پہ کچھ دن اترتے رہے
خوب باتیں ملاقاتیں ہونے لگیں،
لمحے اپنے سبھی یوں بسرتے رہے
پھر کہانی کو وہ موڑ اس نے دیا
دن با دن خواب سارے اجڑتے رہے
آ گئیں میری قسمت میں تنہائیاں
اپنے وعدوں سے وہ بھی مکرتے رہے
اور سنو دوستو کچھ بتاؤں تمہیں
کیسے حالات سے ہم گزرتے رہے
ہم پہ بارش گراتی رہی بجلیاں
من ہی من میں تھے شعلے ابھرتے رہے
وہ ستم گر ستم ہم پہ ڈھاتے رہے
ہو کےمدہوش ہم آہ بھرتے رہے
پھر ہوا یوں مدثر بڑے لطف سے
مارتے وہ رہے ہم بھی مرتے رہے

2
19
واہ واہ

ان مصرعوں میں اردو کی غلطیاں درست کر لیجیئے

دل میں جزبات دن بھر نکھرتے رہے
-- جذبات
کب ہوا پیار ہم کو پتہ نا چلا
-- نا مرکبات میں نفی کے لیئے استعمال ہوتا ہے - آپ کو یہاں "نہ" یک حرفی لانا ہے مگر پھر مصرع وزن میں نہیں رہے گا -

جس جگہ وہ تھے ہم کو نظرتے رہے
== نظرتے اردو میں کوئی لفظ نہیں ہے
میٹھا میٹھا وہ ہس کے اِترتے رہے
-- یہاں آپ شائد ہنس لکھنا چاہ رہے تھے
--- اِترتے بھی اردو میں کوئی لفظ نہیں ہے
لمحے اپنے سبھی یوں بسرتے رہے
-- بسرتے بھی اردو میں کوئی لفظ نہیں ہے - ب کی زیر کے ساتھ بسرتے ہوتا ہے مگر اسکا یہ محل نہیں ہے -
دن با دن خواب سارے اجڑتے رہے
-- دن با دن نہیں یہ دن بدن ہوتا ہے - اور یہ اصطلاح بھی اصل میں روز بروز لکھنا صحیح ہے


0