شبِ فرقت میں جم میں جام لے کے ڈالتا ہوں میں۔ |
یوں سرور سا نظر میں گم ہے سب غم ٹالتا ہوں میں۔ |
جبھی مے باقی رہتی ہوش تھا اب کوچ ہے میرا۔ |
شفق نو صبح کی ہے شب کو روشن جھانکتا ہوں میں۔ |
بھلے دل سوزی کو ڈر خود کے شرسے ہے چلو پھر سے۔ |
چنوں خود وصف اچھےایسے خود کو ڈھالتا ہوں میں۔ |
چلے خود راہ اب پرخار پر توقیر تیری ہے۔ |
سلامت حال رہ خاکی کہ سچ کو پالتا ہوں میں۔ |
یہ اتنی اضطرابی دل سنبھل چل طبع دے حل کر۔ |
مثل مشہور ہے سب صاف ہے سچ جانچتا ہوں میں۔ |
چلےجب تک نہ صبح امید کی روشن ہوا تب سے۔ |
سنبھل کے رکھ قدم چلتا ہوں چہرے بھانپتا ہوں میں۔ |
زمینِ دل پہ سورج کی ضیا اور چاند روشن ہو۔ |
نیا سمجھا ہے سب پورا طریقہ جھاڑتا ہوں میں۔ |
یہ پروانہ فدا کرتا ہے شوقِ روشنی میں جاں۔ |
کبھی سرگوشی خود کی ہے کبھی خود تاکتا ہوں میں۔ |
کہ اب راہِ الگ چن لی ہے میں نے ان کی چالوں سے۔ |
ہاں وہ چلتے ہوں گے لیکن کہ خود سے بھاگتا ہوں میں۔ |
معلومات