دلوں پہ جس کے ذکْر سے سُکُون کا نُزُول ہے |
کلام :ابوالحسنین محمد فضلِ رسول رضوی کراچی |
دلوں پہ جس کے ذکْر سے سُکُون کا نُزُول ہے |
ہاں وہ مُحَمَّدِ خدا ہے اور اَبِ بَتُول ہے |
چَمَن دلوں میں کِھل اٹھا، سُنا جو نامِ مصطفیٰ |
یہ تھا عِلاج دَرْد کا کہ دل ذرا مَلول ہے |
مقامِ مصطفیٰ بلند ہے، عُقُول سے وَرا |
جسے ہو دَعویٰ مِثْل کا وہ دوزخی جَہُول ہے |
اِطاعتِ خدا اِطاعتِ نبی جدا نہیں |
بتا دیا خدا نے کھول کر یہی اُصول ہے |
حُکومتیں خدا نے دی، ہیں ان کو سب زمانوں کی |
حکومتِ خدا جہاں حکومتِ رسول ہے |
عظیم ہے علیم ہے رءوف ہے رحیم ہے |
ملے کہاں شفیق دوسرا ضرور بھول ہے |
کہاں غریب یوں صدا لگاتے جا بجا پھریں |
کرو کرَم حضور ہم ہیں گوشہِ خُمُول ہے |
ہیں رحمتِ خدا وہ عالمین کے لیے سدا |
بنو گدا کریم کے نوید میں شُمُول ہے |
چلے چلو درِ شفیع پر صدا سبھی کو ہے |
دریچے ہیں کھلے یہاں نَعِیم کا حُصُول ہے |
بچا لیا مجھے، وہاں پہ بھی سبھی کے سامنے |
کہے مَلَک کرو رِہَا، عَمَل میں تَو کُہو ل ہے |
گناہ پر نہ کی نظر ترے غلام کے کہیں |
کیا اسے بَری نبی، ولی بڑا کُمول ہے |
گذارو زندگی محبتِ رسول میں سبھی |
بغیر ذکرِ روح کے تو زندگی فُضُول ہے |
غریبو تھام لو مدام دامنِ غنی ابھی |
نہ بھولے گا ہمیں کبھی نہ تو اسے ذُہول ہے |
اگر مگر اگر مگر کرو گے تم کہاں کہاں |
مِٹے رہو یہیں پہ حکمراں جہاں پہ دُھول ہے |
نہ دَیر سے نہ غیر سے ہے لَو تَو بس تجھی سے ہے |
کسی جگہ نہیں، یہ بارگاہ سے عَدُول ہے |
پڑےے رہو، درِ حبي، ب پر نگاہِ نَم لیے |
کہیں سبھی ہاں ان کے دل میں عشق کا حُلُول ہے |
اگر پھرے وہ تجھ سے تَو تُو خار ہے گِرا پڑا |
اگر کرے نَظَر کبھی تری طَرَف تَو پھول ہے |
مری تو شاعری کو جگمگا دیا نصیب نے |
نہیں کمی وہاں مرے کلام میں تو جُھول ہے |
ہاں مدح کا یہ سلسلہ رکا نہیں کہیں پہ بھی |
مبالغہ کہاں پہ ہے بتا کہاں پہ طُول ہے |
نہ شاعری نہ قافیہ نہ ہی ردیف کا پتہ |
مرا وظیفہ بس ثنا کے باب میں دخول ہے |
یوں مِدْحَتِ حضور میں لگا ہے رضْوی پر خطا |
کَرَمْ ہے آج عام حاضری یہاں قُبُول ہے |
از ابو الحسنین محمد فضلِ رسول رضوی، کراچی |
معلومات