وہ تیرے در سے آگ بجھانے چلے گئے
پر کیا پتہ تھا شعلہ مرے آشیاں میں تھا
کوئی بھی بات اب اسے منظور ہی نہیں
وہ شخص کل تلک جو مرے ہم زباں میں تھا
رہبر کے بھیس میں یہاں رہزن ہی مل گیا
رہزن بھی آخرش کو مرے کارواں میں تھا
سوچو کہ کیوں گراتا ہے خرمن پہ بجلیاں
یہ آسماں کبھی جو ترے پاسباں میں تھا
پرچۂ قیس میں جو تھا رکھا گیا سوال
دیکھا وہی سوال مرے امتحاں میں تھا
ہے کیا خبر کہ کون عدو کون دوست ہے
یہ اجنبی تو آج مرے رازداں میں تھا
دل کے معاملے میں پھسلتے ہیں یاں سبھی
کل تک مرا رقیب مرے دوستاں میں تھا

0
24