دھوپ کے سائے میں رک جائے تو اچھا ہو جائے
زخم ہر درد میں چھپ جائے تو اچھا ہو جائے
دور صحرا میں جلیں پیاس کے بے چین دیے
کوئی بادل ہی برس جائے تو اچھا ہو جائے
چاند سے بات کریں، رات سہانی ہو جائے
کوئی جگنو ہی ٹھہر جائے تو اچھا ہو جائے
غم کی دہلیز پہ بیٹھے ہیں کئی خواب مرے
کوئی امید گزر جائے تو اچھا ہو جائے
پھول کی طرح بکھرنے سے مجھے روک ذرا
کوئی ہاتھوں میں ہی رہ جائے تو اچھا ہو جائے
دل کے صحرا میں بھی بارش کی دعا ممکن ہے
کوئی بادل ہی مچل جائے تو اچھا ہو جائے
ساز خاموش ہیں، لفظوں پہ الجھن طاری
کوئی نغمہ ہی مچل جائے تو اچھا ہو جائے

0
9