سینے میں ہے دلْ مردہ، رگوں میں ہے لہو سرد |
اور پھر خرد و نوش پہ بھی چھائی عجب گرد |
پہلے سے ہی تاریکی کی کھائی تو ہے درپیش |
اور عظمت و رفعت کا بھی خورشید ہوا زرد |
خود میں ہی مگن ہو کے ہیں سب محوِ تعیش |
ملت کی زبوں حالی سے غافل ہیں سبھی فرد |
یہ خود غرض و اہلِ ریاء، اہلِ نفاق ہیں |
یہ اپنے مفادات کی خاطر ہوئے ہم درد |
یہ خود سے ہی ہارے ہیں یہ کیا جیتیں گے بازی |
یہ مہرہ بتاتا ہے کہ ہے پٹنے کو ہر نرد |
قائد ہوں نہ لیڈر ہوں نہ ملت کا مسیحا |
کہتا ہوں کہ مجھ کو بھی ہے ملت کا بڑا درد |
ان اہلِ سیاست کی ہے بس ایک ہی منشا |
تہذیبِ فرنگی کی رہے دل پہ ترے گرد |
الحاد کے ہاتھوں میں جو نم خوردہ شمع ہے |
دل سے ترے توحید کے شعلوں کو کرے سرد |
واں سیکھتے ہو خارا شگافی کے طریقے |
تعلیمِ خودی سے سبھی یاں مرد خدا مرد |
پھر کیوں تجھے احکام فرنگی ہیں پیارے |
فرمانِ خدا سنتے ہی چہرہ ہے ترا زرد |
بت خانۂ مغرب کا اگر توڑ دے پندار |
تو مہرۂ عالم میں بھی مارے گا ہر اک نرد |
کٹ جائیں گے مٹ جائیں گے گل سڑ کے تہِ خاک |
احکامِ الٰہی پہ نہ آئے گی کبھی گرد |
یورپ کی غلامی میں جو کھوتی ہے تری عمر |
ثانی دلِ بے تاب میں اٹھتا ہے بڑا درد |
مشرق کی مساجد میں ہیں تقلید کے اصنام |
شعلۂ الہی ہوا شبنم کی طرح سرد |
آؤ کہ سنواریں ہمیں اسلام کی تقدیر |
ملت کے مقدر کا ستارہ ہیں سبھی فرد |
ہے بوئے گل و رنگ چمن خود سے ہی بیزار |
بلبل کیا سنے گی بھلا یہ شورِ انا الورد |
کیسے ہو علاج تیرا پریشاں ہے معالج |
تریاق بے تاثیر ہے بے فیض ہے نشکرد |
اشکوں سے ہر اک شعر کو لبریز کیا ہے |
کس منہ سے یہ دنیا مجھے کہہ دیتی ہے بے درد |
اے بندۂ مومن تو بشیری تو نذیری |
صد حیف کہ افرنگ زخود بے خبرت کرد |
معلومات