تم ایسے نہ کھیلو کھلونے سے۔
جب ٹوٹا کیا ہے رونے سے۔
میری سب راتیں جاگے کٹیں۔
دل کیسے بہلا سونے سے۔
وہ اور تھے جو سبقت لے گئے۔
ہو جاتے ہیں ان ہونے سے۔
سب خواب حقیقت ہوتے نہیں۔
پھر آتے کیوں ہیں ڈرونے سے۔
نہ بھلاؤ اے دوست حقیقت کو۔
یوں کسی گھر کو ڈبونے سے۔
جا چکی ہے بہاریں گلشن سے۔
تم کھیلو نہ ایسے کھلونے سے۔
کہ بہار گلستاں سے جاتی ہے۔
اک نازک شاخ کو چھونے سے۔
کب تک یہاں پر پہچان بنے۔
کچھ اچھا ہوتا نہ ہونے سے۔

0
4